سندھ کے تاریخی مقامات کی سیر


تحریر…محمد عظیم حاصل پوری

سندھ پاکستان کے چارصوبوں میں سے ایک اہم صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے،  لفظ سندھ دراصل دریائے سندھ ہی سے مستعار ہے، جو سنسکرت لفظ سندھو کی موجودہ شکل ہے، بعض کا کہنا ہے کہ سندھ اور ہند دو بھائی تھے ہندہندوستان میں آباد ہو گیا اور سند ھ اس علاقہ میںاسی مناسبت سے اس علاقہ کا نام سندھ پڑ گیا،سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔
ایک عرصہ سے سندھ کے ضلع گولارچی میں مقیم ہمارے دوست اور بڑے بھائی حافظ انور صاحب جو کہ ان دنوں جماعۃ الدعوۃ کی طرف سے سندھ میں دعوت واصلاح کی ذمہ داری پر فائز ہیں،ہمیں سندھ آنے کی دعوت دے رہے تھے ،مصروفیت اتنی اجازت نہیں دیتی تھی کہ دعوت کو قبول کیا جائے مگر نیت درست ہو تو کام آسان ہو جاتے ہیں پھر ہم نے نیت کو درست کیا کہ سیروا فی الارض اللہ کا حکم بھی ہے…مسلمان بھائی کی زیارت اجر کا باعث بھی …سیاحت کے ساتھ ساتھ اگر دعوت وتبلیغ کا مشن ہو تو راہ فی سیل اللہ کا اجر بھی …تو چلوحافظ صاحب کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں…
   چنانچہ 8 فروری 2014ء بروز جمعہ 5بجے مکہ کوچ پر بیٹھ کر ہم سند ھ کی طرف روانہ ہو گے میرے ساتھ بھائی زاہد یزدانی آف چشتیاں اور قاری استفی آف بہاولنگر تھے گاڑی صبح 7بجے حیدرآباد پہنچ گئی ۔حیدر آباد سے ہمیں حافظ انور صاحب اور ان کے سائق شعیب بھائی نے خوش آمدید کہا۔
شعیب بھائی ،زاہد یزدانی صاحب اور قاری استفی صاحب کو لے کر گولارچی روانہ ہو گے اورحافظ صاحب اور راقم ضلع بدین کے شہر ماتلی میں رک گئے ،جہاں پر سکول کے پرنسپل رضاء اللہ بھائی کے ہاں ناشتہ اورکچھ استراحت کے بعد قبل ازطہر گرلزسیکشن میں باپردہ ماحول میں بیان ہو ااور بعد از طہربوائے سیکشن میں بیان ہوا،اسٹاف سے ملاقات کی اوراسی طرح بعد ازنماز مغرب ٹنڈو محمد خان اور بعد از نماز عشاء شہر ماتلی میں درس قرآن دینے کے بعد ہم گوراچی کی طرف روانہ ہو گئے۔یہ سندھ میں ہمارے پہلے دن کی مصروفیت تھی۔
رات حافظ انور صاحب کے گھر بسر کی اوراگلی صبح ہمیں تھر پار کر اور میر پور خاص جانا تھا،صبح 9بجے کے قریب شعیب بھائی کی معیت میں مولانا زاہد صاحب اور راقم نے سفر شروع کیا  ،نماز طہر میر پور خاص جنڈو میں ادا کی اور زاہد بھائی نے مختصر نصیحت کی پھرمحترم ابو علی بھائی کے ساتھ ہم جامعہ دارالعلوم السلفیہ نوا کوٹ تھر پار کر پہنچے بعداز نماز عصر جامعہ کے طلباء کو حفظ حدیث کی ترغیب دلائی مختصر نصیحت کی اور وہاں سے قریب نوا ںکوٹ قلعہ دیکھنے کے لیے روانہ ہو گئے قلعہ چونکہ جامعہ کے قریب ہی تھا چنانچہ ہم جلد وہاں پہنچے۔
قلعہ نواں کوٹ ٹالپروں کے دور حکومت کی یاد گار ہے یہ قلعہ نواں کوٹ شہر سے مشرق جنوب کی طرف 3کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ قلعہ میر کرم علی خان ٹالپر کے سن1814ء بمطابق 1229میں تعمیر کرایاگیا تھا،اس قلعے کے سامنے والے حصے کی لمبائی366فٹ اور چوڑائی 316فٹ ہے اس قلعہ کی تعمیر میں پکی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں اور اینٹوں کو جوڑنے کے لیے مٹی کا گارا اور چونا استعمال ہوا ہے یہ قلعہ دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک حصے میں بیرکیں اور دوسرے حصے کو رہائش کے لیے استعمال کیا جاتا تھااس قلعہ کی دیواروں کی موٹائی 4سے 9فٹ تک ہے اس قلعہ کی چھت محرابی ،سیدھی اور گولائی کی صورت بنائی گئی ہے اس قلعہ کی شاندار بناوٹ کی وجہ سے یہ قلعہ باقی قلعوں سے منفرد نظر آتا ہے ،لیکن اب یہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے:
بہت قریب سے دنیاکو  دیکھ  آیا  ہوں
کہیںمکیںنہ ملے اورکہیںمکاں  غا ئب
 اس قلعے کے باسی اللہ کی زمین میں صرف اپنے نشان ہی چھوڑ کر چل بسے اور ایک دن یہ نشان بھی نہ ہوں گئے مگر افسوس کہ انسان اس حقیقت کو سامنے رکھے بغیر اپنی ساری زندگی اس دنیا کی آرائش و آسائش کے لیے گزار دیتا ہے اور اس سے کروڑ وںدرجہ بہتر جنت کے لیے جو لافانی اور لاثانی ہے اسکے حصول سے غافل رہتا ہے ۔
     پتا پتا     یہ   صدا    دیتا   ہے          وقت  ہر  شے  کو  اڑا    دیتا    ہے    
    آغازکسی شے  کا  نہ  انجام  رہے  گا     آخروہی  اللہ  کا  اک  نام  رہے  گا   
قلعہ کو دیکھ کر ہم شام ڈھلنے سے پہلے ہی وہاں سے واپس میر پور خاص جنڈو شہر میں پہنچ گئے جہاں پر محترم بھائی ابو علی نے شاندار پروگرام کا انتظام کیا تھااور ہمارا کھانابھی چند دوستوں کے ساتھ ابو علی بھائی کے گھر تھا جو پرتکلف ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ اور لذیذ بھی تھا ۔
رات پھر واپس گوراچی حافظ انور صاحب کے ہاں پہنچے اور اگلے دن یعنی 10 فروری کو ہم نے صبح جلد ہی حیدر آباد کا رخ کیا اور براستہ ٹھٹہ گئے کیونکہ ہمیں مسجد شاہجہاں اور دنیا کا سب سے بڑا قبرستان دیکھنا تھا ،راستے میں کئی ایک جگہیں دیکھی جہاں سے گیس اور تیل کے ذخائر ملے تھے ،دریائے سندھ کے اوپر سے گزرتے ہوئے ہم ٹھٹہ مسجد شاہجہاں پہنچے ،سندھ کے ضلع ٹھٹہ میں واقعہ جامع مسجد شاہجہاںٹھٹہ مشہور بادشاہ شاہجہاں نے 1644ء بمطابق1054ھ میں تعمیر کروائی اور1647ء  بمطابق 1057ھ میں تین سال کے مختصر عرصہ میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ، اس مسجد کی تعمیر پر کل نولاکھ شاہجہانی روپے صرف ہوئے جو شاہی خزانے سے ادا کئے گئے اسکی بنیاد12تا15 فٹ گہری ہیں جو پہاڑی پتھروں پر مشتمل ہیں اس مسجد کے پانچ دروازے ہیں جن میں ایک صدر دروازہ اور دو چھوٹے دروازے اطراف میں جبکہ ایک ایک دروازہ شمالی اور جنوبی دیواروں کے وسط میں ہے اس مسجد میں چھوٹے بڑے کل سو (100)گنبد ہیں ، جن میں  6 بڑے اور باقی چھوٹے گنبد ہیں اس کے کل94 ستون ہیں، مسجد شاہجہاں کے ان گنبدوں کی ترتیب اور ہوا کی آمد ورفت کا انتظام کچھ اس خوبی کے ساتھ ہے کہ امام وخطیب کی آواز بغیر کسی صوتی آلے کے مسجد کی مکمل عمارت میں سنائی دیتی ہے اور ہوا کا انتظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ تمام مسجد میں کسی جگہ ہوا کی کمی کا احساس نہیں ہوتااس مسجد میں ایک وقت میں20,000 ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔   
اور پھرہم ٹھٹہ میں واقع مکلی قبرستان پہنچے،دنیا میں مسلمانوں کے اس سب سے بڑے قبرستان میں لاکھوں قبریں ہیںجو عہد پارینہ کی یاد دلاتی ہیںچھوٹا سا خاموش شہر مکلی چھ مربع میل سے زائد رقبہ پر بسیط ہے اس سے ماضی کی چار سو سال پرانی ایک عظیم تہذیب وابستہ ہے ۔یہ وہ دور تھا جب کہ خانوادہ سمہ(۱۳۴۰ء تا۱۵۲۰ء)ارغون(۱۵۲۰ء تا۱۵۵۵ء)نزخار(۱۵۵۵ء تا ۱۵۹۲ء)اورسامان مغلیہ(۱۵۹۲ء تا۱۷۳۹ء)نے شہر ٹھٹہ کو شان وشوکت بخشی تھی جہاں کے متوطن بزرگان دین ،امراء ،وزراء اور حکمرانوں نے مکلی کو اپنی آخری آرام گاہ بنایا،دولت کے اعتبار سے بعض ہمعصر یورپی سیاحوں نے اسی شہر ٹھٹہ کو کان زر کے نام سے بھی موسوم کیا ہے
           مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے     ہوئے نامور بے نشا ںکیسے کیسے
             نہ گور سکندر  نہ  ہے  قبر  دارا       زمین کھا گئی  آسماں کیسے کیسے

ہم نے ٹھتہ سے آگے حید رآباد کے راستے میں میٹھے پانی کی جھیل جنجر کا نظارہ بھی کیا جو سینکٹروں مربع میل پر پھیلی
 ہوئی ہے اور پورا کراچی اسی کا پانی پینے کے لیے استعمال کرتا ہے
اس کے بعد وہاں سے کوٹری عمران بھائی کے ہوٹل سے پرخلوص کھانا تناول کیا اور پھر حیدر آباد پہنچے گئے جہاں شیخ مبشر احمد ربانی صاحب سے ملاقات ہوئی جو بھی دعوتی پروگرامز کے سلسلہ میں سند ھ میں موجود تھے ،بعد از نماز عصر حیدر آباد سے ہماری روانگی شہرٹنڈو اللہ یار کی طرف ہوئی نماز عشاء کے بعد وہاں بیان تھا وہاں پر ہم محترم بھائی محمد علی اور بزرگ دوست اسلام الدین کے مہمان تھے رات وہیں بسر کی اور اور محترم اسلام الدین صاحب کے عمدہ ضیافت کی لذت آج بھی محسوس ہوتی ہے،صبح 11فروری کو دوستوں نے وہاں پر موجود ہندو برادری کا بہت بڑا مندر شری راما پیر(رامدیو) دیکھایا۔ یہ مندر ڈیڑھ سوسال پرانا ہے کہاں جاتا ہے کہ رقبے کے اعتبار سے ہندوں کا یہ مند ر سند ھ میں سب سے بڑا ہے چند سال پہلے جب مسجد بابری کو ہندؤںنے گرانا شروع کیا تھا تو مسلمانوں نے غیرت ایمانی میں آ کر اس مندر کو بھی زمیں بوس کر دیا تھا لیکن جلد ہی ہندوآبادی کی اپیل پر پاکستانی حکومت نے اسے پھر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی اب یہ مند ر دوبارہ پچاس لاکھ کی لاگت سے 1998ء میں تعمیرہوا جس کو تعمیر کروانے میں قومی اسمبلی کے ممبر شریمان سیت کشن چندپارواٹی نے اہم کردار ادا کیا جس میں پاکستان حکومت نے بھی چار لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔
اس مندرکے اند ر ہندوؤں کے بھگوانوں کی مورتیاں بھی موجود ہیں مثلا رام ،سیتا،ہنومان وغیرہ اور اس علاقہ کی معروف ہندو شخصیات جو فوت ہو چکی ہیں ان کی سمادیاں بھی مندر میں بنائی گئی ہیںوہاں ان کی گاؤ ماتا کو بھی دیکھنے کا موقع ملا جن کی ہندؤ برادری پوجا پاٹ کرتی ہے۔
قارئین آپ حیران ہوں گے کہ ہندوؤں کے مندر اور مسلمانوں کے درباروں میں آپ کو کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا اگر مسلمان قبروں پر نذرونیاز اور چادر چڑھاتے ہیں اور لنگر تقسیم کرتے ہیں تو یہی کام ہندو اپنے مندروں میں کرتے ہیں …

علامہ اقبال نے سچ کہا تھا 
                    وضع  میں  تم   ہو    نصاریٰ   تو تمدن    میں   ہنود
                   یہ  مسلماں  ہیں  جنہیں  دیکھ  کے  شرمائیں  یہود

  مندر دیکھنے کے بعد ٹنڈو اللہ یار شہر سے دوستوں نے شاپنگ بھی کروائی اور پھرہم نے اپنا سفر واپسی گولارچی کی طرف کرنا شروع کردیا ،راستہ میں محترم اسلام الدین صاحب کی اس ہاوسنگ کالونی کو دیکھ کر بھی بہت خوشی ہوئی جو انہوں نے نو مسلم لوگوںکے لیے شروع کی ہے چند منٹ وہاں ٹھہرے ، دعائے خیر کی اور آگے بڑھ گئے۔
 اور ظہر کی نماز کے بعد گولارچی میں واقع جامعہ محمدیہ اسکول بوائز اینڈ گرلز میں طلباء سے خطاب ہوا اور گولارچی کے قریب واقع چک نمبر 54 پہنچے جہاں بعداز نماز مغرب درس قرآن ہوا ،ڈاہرانوالہ سے ہجرت کر کے جانے والے بہت سے بھائیوںسے ملاقات ہوئی اور حافظ عمران صاحب نے خوب ضیافت کر کے ہمیں اپنا ممنون بنایااور پھر رات حافظ انوار صاحب کے آبائی گاؤں چک 58 میں پہنچے وہاں ابو علی بھائی اور سرور صاحب اور دیگر احباب سے ملاقات ہوئی رات آرام کیا نماز فجر کے بعد درس قرآن ہو ااور جلد ناشتہ سے فارغ ہو کر واپسی گولارچی پہنچے کیونکہ آج ہمارا سندھ میںقیام کا آخری دن تھا ۔پھر گولارچی سے بدین پہنچے،شہر بدین میں جماعۃ الدعوۃکا مرکز دیکھا اس کے ساتھ ملحق سٹی پبلک سکول کا وزٹ کیا اسٹاف سے ملاقات کی اور پھربدین کے ساتھی محمد عمر بھائی ہمیں مدرسہ شمس الھدیٰ لے گئے جہاں ہماری ملاقات مدرسہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالرزاق ابراہیمیd سے ہوئی جو لمبے قد کے خو ش اخلاق اورسادہ انسان تھے اور ابن بشیر صاحب کے کلاس فیلو جامعہ تربیہ فیصل آباد کے فارغ بھائی عبد القادر رحمانی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی  شیوخ نے ہمیں مدرسہ کا تعارف کروایا اور مدرسہ کی خوبصورت مسجد اور ساتھ ملحق سکول ولائبریری دیکھائی ،دین کے یہ مراکز دیکھ کر یقین ہو اکہ اب بھی اہل علم وہنر کی علم دوستی میں کمی نہیں ہے۔

 ہمارااگلا سفر سندھ کے ضلع مٹیاری کے شہر نیو سعید آبادکی طرف شروع ہوا وہاں پر واقع جماعۃ الدعوۃ کے مرکز باب
 الاسلام میں نماز عصر کے بعد دوستوں نے پرتکلف کھانا پیش کیا ،سلام دعا ہوئی اور اب ہمارا قافلہ حافظ انور صاحب اورسائیں محرم صاحب کی قیادت میںشیخ العرب والعجم محب اللہ شاہ راشدی  رحمہ اللہ کے مکتبہ کی طرف روانہ ہوئے شیخ سید احسان اللہ شاہ راشدی کے فرزند ہیں جو گوٹھ پیر جھنڈا میں 1921ء میں پیدا ہوئے اور 1995ء میں دنیا سے چل بسے۔
ہم راشدی صاحب کے مکتبہ العالیۃ العلمیۃ میں پہنچے جو نیو سعید آباد سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ گاؤں ساٹھ ستر گھروں پر مشتمل مگرراشدی خاندان کی وجہ سے پوری دنیا میں معروف ہے۔ہمارا استقبال راشدی خاندان کے موجود محقق سید انور بن قاسم بن محب اللہ بن احسان اللہ شاہ راشدی dسے ہوئی یہ شاہ محب اللہ رحمہ اللہ کے پوتا جی ہیں اٹھائیس یا انتیس سال کے نوجوان ،خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیںآجکل یہی مکتبہ کی ذمہ دارہیںاور سید محب اللہ صاحب کی لائبریری میں پڑی انکی کی کتب سے شیخ کی تعلیقات کوافادئہ عام کے لیے جمع کر رہے ہیں ہمیں خندہ پیشانی سے ملنے کے بعد مکتبہ کا تعارف کروایا ،تمام کتب فنی ترتیب سے رکھی گئیں ہیںاور پھر ہمارے استفسار پر اپنے والد محترم سید قاسم شاہ راشدی صاحب سے ملاقات کروائی جو آجکل فالج کی لپیٹ میں ہیں ہم نے عیادت کی، رب العزت سے انکی صحت یابی کی دعائیں کیں سید قاسم شاہ اگرچہ فالج کی وجہ سے بستر پر تھے مگر ہمارے آنے پر جس قدر استقبال کیا اور جوش وخروش سے ملے کہ جیسے انہیں کوئی مرض نہ ہو مجھے اُس وقت استاد محترم حافظ عبد السلام بھٹوی صاحب یاد آئے وہ اکثر 
 علامہ اقبال کا یہ شعرپڑھا کرتے ہیں:

                    ان کے دیکھے سے جوآجاتی ہے منہ پہ  رونق
                    وہ سمجھتے  ہیں کہ  بیمار  کا  حال  اچھا   ہے

اور آخر میں ہمیں گھر کے اک خاص کمرے میں پڑے تین سو کے لگ بھگ مخطوطات کی زیارت کروائی جن کو قیمتی خزانے کی طرح سیف الماریوں میںمحفوظ رکھا گیا تھا،ان میں ایک امام بیھقی کی شعیب الایمان کا نسخہ بھی دیکھا جو ہاتھ سے لکھا ہوا ایک ہزار سال پرانا تھا،اب ان مخطوطات میں سے جو منظر عام نہیں آئے انہیں سید انور شاہ راشدی صاحب 
.محنت کر عوام الناس تک پہنچائیں گے۔اللہ ان کی خاص مدد فرمائے۔

اس کے بعد ہم سیدبدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے مکتبہ کی طرف بڑھے جو کہ سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے چھوٹے بیٹے ہیں یہ 16مئی1926ء بمطابق1342ھ گوٹھ فضل اللہ شاہ(نیو سعید آباد ) میں پیدا ہوئے اور 8جنوری1996ء میں اس دار فانی کو چھوڑ کر چلے گئے یہ جماعت اہلحدیث کے بہت بڑے محدث ،محقق ،مناظر اور شیخ العرب والعجم تھے ۔سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کی مسجد میں نماز مغرب کی ا مامت اورمختصرخطاب کیا پھر ہمیں عبدالرزاق ذل بھائی نے جو آجکل مکتبہ الراشدیہ کے ذمہ دار ہیں مکتبہ کا تعارف اور فنی ترتیب سے رکھی گئی کتب دیکھائیں ،سیدبدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے مکتبہ میں بھی بہت قیمتی مخطوطات دیکھنے کو ملے ،اللہ ان بزرگوں کی دینی خدمات کو قبول فرمائے۔
وقت کی قلت کے باعث سے ہم یہاں سے جلد روانہ ہوئے کیونکہ ہم نے نیو سعید آباد سے پنجاب واپسی کی گاڑی 8بجے لینی تھی ۔سندھ کے ثقافتی تحائف اجرک اور سندھی ٹوپی کی عنایت اور حافظ صاحب کی محبت اللہ اس پر انہیں اجر عظیم عطاء فرمائے اورجو دن سندھ میںہم نے حافظ انور صاحب اور شعیب بھائی کی معیت میں گزارے یقینا یہ یاد گار لمحات ہم زندگی بھر نہیں بھولیں گے ۔

                  تحریر   میں  کہاں  سمٹتے ہیں  دلوں کے  جذبات
                  بس یونہی دل کو بہلا رہے ہیں ذرا کاغذوں کے ساتھ

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.